#طلبِ_محبت

#ازقلم_عنایہ_نور
#سنیک_پیک_1
گھر کا کام نبٹانے کے بعد فاطمہ اوپر اپنے کمرے کی طرف جانے لگی تھی جب دروازے کی بیل بجی۔
"چچی تو ابھی سو رہی ہوں گی ' میں ہی جا کر دیکھ لیتی ہوں۔"
وہ خود سے ہی سوچتی دروازے کی طرف بڑھی۔
دروزہ کھولنے پر سامنے موجود ہستی کو دیکھ اس کی ہرٹ بیٹ لمحے میں بڑھی تھی۔
"آ۔۔۔آپ"
نہ جانے کیوں وہ اس کے سامنے ہکلا جاتی تھی۔
"جی میں۔۔ اب ہٹو سامنے سے ' میں نے اندر آنا ہے۔"
لیا دیا سا انداز تھا۔
"پانی لائوں آپ کےلیے؟"
وہ اس کے پیچھے چلتی بہت آہستہ آواز میں بولی تھی۔
"نہیں۔۔۔ میرے سر پر مسلط ہونے کی ضرورت نہیں ہے ۔ پہلے ہی میرے گھر والے تمھیں ہمیشہ کےلیے میرے ذمے تھوپنے والے ہیں۔ اب شادی سے پہلے کے کچھ دن تو مجھے سکون سے جینے دو۔"
وہ درشتی سے کہتا صوفے پر بیٹھ چکا تھا۔
"شادی تو چچی کی مرضی سے ہو رہی ہے۔"
وہ بس ہلکا سا منمنا ہی سکی تھی۔
"نہیں ' تمھاری اس بھگوڑی ماں کی مرضی سے ہو رہی ہے جو خود تو بھاگ گئی اور تمھیں ہمارے سر پر ڈال گئی۔"
"لیکن اس سب میں میرا کیا قصور۔"
اتنی ذلت پر اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔
"تمھارا قصور یہ ہے کہ تم اس بھگوڑی کی بیٹی ہو۔"
وہ غصے کے عالم میں اس کا بازو سختی سے پکڑ چکا تھا۔
"تو آپ مجھ پر غصہ کیوں کر رہے ہیں؟"
بازو چھڑانے کی سعی کرتی وہ بامشکل ہی بول پائی تھی۔
"ہاہاہاہاہا"
وہ ہنسا اور ہنستا ہی چلا گیا۔۔ کیسی طنزیہ اور تمخر اڑاتی ہنسی تھی اس کی۔
"فاطمہ بی بی' تم اتنی معصوم نہیں ہو جتنی بن رہی ہو۔ ہو تو اسی کوثر کا خون ' تم نے بھی تو ایک نہ ایک دن اس گھر سے بھاگ جانا ہے۔"
ایسے الفاظ ' وہ بھی ہونے والے شوہر کے منہ سے ' وہ شرم سے مر کیوں نہیں گئی۔
"آپ کو ایسا کیوں لگتا ہے کہ میں یہاں سے بھاگ جائوں گی ' میں بھی امی کی طرح ہی سب کی عزت خاک میں ملا دوں گی۔"
وہ سر نیچے کیے بولی ' آخری بات کرتے تو اس کی آواز ویسے ہی بھرا گئی تھی۔
"مجھے لگتا نہیں ہے ' مجھے پورا یقین ہے تم بھاگ جائو گی۔ اب ہٹو سامنے سے ' دماغ خراب کر کے رکھ دیا ہے۔"
وہ اسے چھوڑتا تیزی سے سیڑھیاں پھلانگ گیا تھا۔
پیچھے وہ بس کراہ کر رہ گئی تھی۔ اس کی بازو کی جلد سرخ ہو چکی تھی ۔ لیکن یہ تو کچھ بھی نہیں تھا۔ اس زخم سے زیادہ تکلیف دہ تو وہ الفاظ تھے حو وہ حاد کے منہ سے سن چکی تھی۔
"کیا وہ ہمیشہ اپنی ماں کے ایک غلط قدم کی وجہ سے یونہی ذلت سہتی رہے گی؟"
اس نے بےاختیار سوچا لیکن جو جواب تھا وہ اسے قبول کرنا نہیں چاہتی تھی۔
رگڑ کر اپنے گالوں سے آنسو صاف کرتی وہ اٹھی اور اپنے کمرے کی جانب بڑھ گئی۔ یہ ذلت تو ساری زندگی اس کا ساتھ نہیں چھوڑنے والی۔